اشاعتیں

کالمز لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نمایاں پوسٹ

عثمان بزدار آؤٹ

تصویر
  وزیراعظم عمران خان نے عثمان بزدار سے استعفٰی لے لیا۔ عثمان بزدار نے استعفٰی وزیراعظم عمران خان کو پیش کر دیا، وزیراعظم عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلٰی پنجاب نامزد کر دیا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے وزارت اعلٰی کی آفر قبول کر لی، عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کو ناراض ارکان کو منانے کا ٹاسک دے دیا۔ وزیراعظم نے اپوزیشن کو سرپرائز دے دیا، عثمان بزدار سے پنجاب کی وزارتِ اعلٰی واپس لے کر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلٰی نامزد کر دیا۔ ق لیگ کے رہنماء طارق بشیر چیمہ نے اپنی وزارت سے استعفٰی پیش کر دیا اور کہا کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق اپنا ووٹ وزیراعظم عمران خان کے خلاف دیں گے ترین گروپ نے بھی سوچ بچار شروع کر دی اور کہا کہ پرویز الٰہی مناسب امیدوار ہیں ان کا ساتھ دیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی حکومت کے معاملات طے ہو گئے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے ایم کیو ایم کو ایک اور وزارت دینے کی پیشکش کر دی۔ لیکن رہنماء ایم کیو ایم امین الحق نے کہا کل پرسوں تک فیصلہ کر لیں گے تب تک حکومت اپنے ایم این ایز کو منا لے۔ زرائع کے مطابق بلوچستان عوامی

تھوڑا وقت اور...

تصویر
 بس تھوڑا وقت اور پھر سارا فیصلہ ہو جائے گا۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کیا جمع کرائی سیاست دانوں کی تو جیسے موج لگ گئی ایم این ایز کی بولیاں لگ رہی ہیں، اپوزیشن منحرف ارکان کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی اور اتحادیوں کو بھی بڑی بڑی آفرز دی جا رہی ہیں، کسی کو وزارت کی آفر اور کسی کو ٹکٹ کے ساتھ ساتھ 16 سے 18 کروڑ روپے دیے جانے کا انکشاف کیا جا رہا ہے، گزشتہ روز پی ٹی آئی کی ایم این اے نے انکشاف کیا کہ ان کو 16 کروڑ روپے کی آفر پی پی پنجاب اور پی پی سندھ کی طرف سے کی گئی ہے، اپوزیشن نمبر پورے ہونے کے دعوے کر رہی ہے اور دوسری طرف حکومت اپنے منحرف ارکان کو واپس آنے پر عام معافی کا اعلان کر چکی ہے اور یہ اعلان گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے مالاکنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری طرف اتحادیوں کو دیکھا جائے تو وہ کشمکش کا شکار ہیں کہ حکومت کا ساتھ دیں یا اپوزیشن کا، اس ملک میں کوئی کونسلر کی سیٹ سے استعفٰی نہیں دیتا اور اپوزیشن والے اتحادیوں سے کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کا ساتھ دیں اور تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروائیں، اتحادی اس بات کے لیے پریشان ہیں کہ اگر اپوزیشن کا ساتھ دیں اور کل کو عمرا

عمران خان سے پہلے 2 وزرائے اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام رہیں

تصویر
اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے، پاکستان کی تاریخ میں یہ تیسری بار ہے کہ کسی منتخب وزیراظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہے، اس سے پہلے پاکستان کے 2 وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور انہوں نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کیا اور دونوں مرتبہ ہی یہ تحریک ناکام ہوئیں۔ پاکستان کی تاریخ میں 1989 میں پہلی مرتبہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی، لیکن قومی اسمبلی میں 12 ووٹوں سے اس تحریک کو رد کر دیا گیا۔ 237 ارکان کے ایوان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہٹانے کے لیے 119 ووٹ درکار تھے لیکن تحریک کو 107 ووٹ حاصل ہوئے، وزیراعظم نے 125 اعتماد کے ووٹ حاصل کیے جبکہ 5 ارکان غیر حاضر تھے۔  اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔ یہاں کلک کریں۔۔۔ دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد اگست 2006 میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور اقتدار کے دوران اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو ہٹانے کے لیے لائی گئی لیکن اس بار بھی اپوزیشن کامیاب نہ ہو سکی۔ اور اب یہ تیسری بار تحریک عدم اعتماد وزیراعظم عمران خان کے خلاف ن لیگ،

پڑھے لکھے نوجوان بیروزگار کیوں؟

تصویر
  ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج کا نوجوان پہلی جماعت سے لیکر ایم فل اور پی ایچ ڈی تک پوری محنت کرتا ہے اور ساری تھیوریز کو یاد تو کر لیتا ہے لیکن جب عملی میدان میں آتا ہے تو یہ دیکھ کر بھونچکارہ جاتا ہے کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ کیونکہ اس کی ساری محنت تھیوری پر کرائی گئی ہوتی ہے جبکہ یہاں تو سن پریکٹیکل چلتا ہے اور وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ ہوتا جاتا ہے۔ اس صورت حال کے کئی نقصانات ہیں۔ جب پڑھا لکھا نوجوان یہ سب دیکھتا ہے تو اسے اپنی ڈگریاں فضول لگتی ہیں۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس نے پڑھنے میں صرف اپنا وقت ضائع کیا ہے کیونکہ اس کو تو کوئی فائدہ ہی نہیں ملا۔ اور جب اس کو کوئی نوکری نہیں ملتی تو وہ ناامید ہو کر کوئی اور کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اس طرح معاشرہ اچھے خاصے ٹیلنٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔ تیسرا نقصان انڈسٹری کے لیے ہے،ایسے میں جب اس کے پاس نالج سے محروم ڈگری یافتہ نوجوان آتا ہے تو انڈسٹری کو اس پر دوبارہ محنت کرنا پڑتی ہے تب جا کر وہ انڈسٹری کے قابل بنتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب ایک نوجوان نے مخصوص دن کو چار سل تک پڑھا ہے تو پھر اس کو ایکسپرٹ اور جدید دور کے تقاضوں

ریکوڈک کیا ہے اور کہاں ہے؟

تصویر
  لفظ ریکوڈک بنیادی طور پر بلوچی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی"ریت کا ٹیلا"۔ ریکوڈک جس کی وجہ شہرت معدنیات بلخصوص سونے اور تانبے کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں افغانستان اور ایران کی سرحد کے ساتھ واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ ریکوڈک کی کانوں میں تانبے اور سونے کے ذخائر کا شمار دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ بلکہ بین الاقوامی ماہرین معدنیات کے مطابق یہاں دنیا کی کل معدنیات کا پانچواں حصہ دفن ہے۔ تانبے کے ان ذخائر کی وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چلی جو اس وقت دنیا میں تانبے کے ذخائر رکھنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر چلا آ رہا ہے۔ اب ایک اندازے کے مطابق ریکوڈک میں تانبے کے ذخائر چلی سے بھی زیادہ ہیں۔ کان کنی کی ایک بہت بڑی بین الاقوامی کمپنی ٹیتھیان کاپر  کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ ریکوڈک میں دو کروڑ 30 لاکھ اونس سونا اور ایک کروڑ 30 لاکھ ٹن تانبے کے ذخائر زیر زمیں موجود ہیں۔ حکومت' اتحادی اور اپوزیشن کا مکالمہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں اسی کمپنی نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ ریکوڈک میں زیر

آئیے! اسٹرابری اگائیں۔

تصویر
 اس نازک پھل کی کاشت بہت زیادہ توجہ اور احتیاط کی متقاضی ہے۔ اس کا روزرانہ کی بنیاد پر خیال رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ خراب ہونے میں دیر نہیں لگائے گا۔ اسٹرابری کو گھر میں بھی لگایا جا سکتا ہے۔ گھر میں بنی کیاریوں' گملوں' کنٹینر اور دیواروں پر لٹکنے والے باسکٹ میں بھی یی پودا لگایا جا سکتا ہے۔ زمین پر قطار کی صورت میں لگائے جانے والے ہر پودے کے درمیان کم سے کم 12 سے 15 انچ تک کا فاصلہ ضروری ہے۔ اسٹرابری کے بیج کو زمین میں بوتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ بنیادی حصہ ہے جہاں پودے کا stem اگنا شروع ہوتا ہے۔ اس لیے اسے نہ زیادہ گہرائی میں رکھیں نہ ہی زیادہ اوپر رکھیں۔ اس بیج کو کراؤن کہا جاتا ہے اگر بیج پر مٹی آ جائے تو یہ خراب ہو جاتا ہے۔ اور اگر اس پر مٹی آ جائے تو پودا نہیں لگے گا اور اگر یہ مٹی سے باہر آ جائے تو اس کی جڑوں میں خرابی آ جائے گی۔ اس لیے زمیں میں درمیان کی جگہ کا انتخاب کریں مولی کے فوائد جاننے کے لیے یہاں کلک کریں   موسم سرما میں اسٹرابری کے پودے کو سورج کی روشنی کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ اور جیسے ہی موسم بہار کا آغاز ہوتا ہے ان پودوں پر چھاؤں کر دی جاتی ہے۔ تاکہ ا

مولی کھائیں پتوں سمیت

تصویر
  مولی ایسی سبزی ہے جسے سلاد کے طور زیادہ تر کچا کھایا جاتا ہے۔ مگر پکا کر کھانے سے بھی لذت دوبالا ہو جاتی ہے۔   مولی کی دو اقسام ہیں ۔  سبز اور سفید مولی: یہ مولی لمبی اور شلجم کی طرح گول ہوتی ہے۔ اس میں وٹامن ای اور بی پایا جاتا ہے۔ وٹامن بی سوزش اعصاب کو روکتا ہے۔ اور وٹامن قوت تولید بڑھاتا ہے۔ اس کی قلت بانجھ پن اور اسقاط کا باعث بنتی ہے۔ کچی مولی قبض کشا ہے۔ بعض لوگ قاشوں کو نمک لگا کر رکھ لیتے ہیں تاکہ اس کی کڑواہٹ نکل جائے لیکن یہ عمل درست نہیں۔ نیز بھجیا بناتے وقت مولی کو ابال کر پانی پھینک دینا بھی ٹھیک نہیں۔ ان طریقوں سے تمام نمکیات اور ضروری اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں اور صرف لکڑی کا ریشہ باقی رہ جاتا ہے۔ مولی کا پانی خون صاف کرنے میں مدد کرتا ہے۔ کیونکہ مولی میں گندھک کا جزو موجود ہے۔ کچی مولی کو نمک' کالی مرچ اور زیرہ کے ساتھ ملا کر کھائیں تو ڈکاریں کم آتی ہیں اس ہمیشہ کھانے کے ہمراہ یا درمیان میں خوب چبا کر کھایا جائے ورنہ کھانا ہضم۔ہونے کے باوجود دیر تک ڈکاریں آتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے اطباء کہتے ہیں کہ یہ خود دیر ہضم ہے لیکن دوسری غذا کو جلدی ہضم کرتی ہے۔ مولی کا سالن بہ

حکومت' اتحادی اور اپوزیشن

تصویر
 اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کو آج تک کوئی ایسا سیاستدان نہیں ملا جو اس ملک کے ساتھ پوری طرح مخلص ہو اور وفادار دکھائی دے۔ اس ملک کی حکومت کو اتحادی بھی ایسے ملتے ہیں جن کو بس اپنی وزارتوں سے غرض ہوتی ہے۔ وزارت بھی اپنی مرضی کی لی جاتی ہے  وزارت ملے تو مخلص نہ ملے تو بار بار چھوڑ جانے کی دھمکی دے دی جاتی ہے۔  اس وقت حکومت بہت نازک موڑ پر کھڑی ہے باہر سے تو مضبوط دکھائی دے رہی ہے لیکن اندر ہی اندر پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے ق لیگ کے مونس الٰہی سے ملاقات کے دوران پوچھا تو مونس الٰہی نے کہا کہ ہم آپ کے ہی ساتھ ہیں پر حالات شاید اس سے کافی مختلف ہیں  اب ق لیگ کو ہی دیکھ لیں جب جب حکومت کو مشکل پیش آتی ہے تب تب یہ اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو بس اپنی فکر لگی رہتی ہے ان کا نس یہی کہنا ہوتا ہے کہ انکے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں کیا گیا پھر بھی وہ حکومت کے ساتھ ہیں۔ ایم کیو کا کہنا ہے کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کے ماتحت نہیں۔ پھر بھی اگر دیکھا جائے تو کافی حد تک ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ مخلص نظر آ رہی ہے۔   ق لیگ نے