نمایاں پوسٹ
حکومت' اتحادی اور اپوزیشن
- لنک حاصل کریں
- ای میل
- دیگر ایپس
اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کو آج تک کوئی ایسا سیاستدان نہیں ملا جو اس ملک کے ساتھ پوری طرح مخلص ہو اور وفادار دکھائی دے۔ اس ملک کی حکومت کو اتحادی بھی ایسے ملتے ہیں جن کو بس اپنی وزارتوں سے غرض ہوتی ہے۔ وزارت بھی اپنی مرضی کی لی جاتی ہے وزارت ملے تو مخلص نہ ملے تو بار بار چھوڑ جانے کی دھمکی دے دی جاتی ہے۔
اس وقت حکومت بہت نازک موڑ پر کھڑی ہے باہر سے تو مضبوط دکھائی دے رہی ہے لیکن اندر ہی اندر پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے ق لیگ کے مونس الٰہی سے ملاقات کے دوران پوچھا تو مونس الٰہی نے کہا کہ ہم آپ کے ہی ساتھ ہیں پر حالات شاید اس سے کافی مختلف ہیں
اب ق لیگ کو ہی دیکھ لیں جب جب حکومت کو مشکل پیش آتی ہے تب تب یہ اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو بس اپنی فکر لگی رہتی ہے ان کا نس یہی کہنا ہوتا ہے کہ انکے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں کیا گیا پھر بھی وہ حکومت کے ساتھ ہیں۔ ایم کیو کا کہنا ہے کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کے ماتحت نہیں۔ پھر بھی اگر دیکھا جائے تو کافی حد تک ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ مخلص نظر آ رہی ہے۔
ق لیگ نے حکومت کے ساتھ رہنے اور اتحادی ہونے کا کافی حد تک فائدہ اٹھایا ہے۔ ق لیگ نے وفاق اور صوبہ پنجاب میں کافی وزارتیں حاصل کر لی ہیں۔
ق لیگ کے سینیئر لیڈر چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ جب وہ کسی کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہ بس اسی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ لیکن ق لیگ اس وقت مہنگائی کو لے کر کافی پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں جو سہولیات تھیں وہ اب کہیں دکھائی نہیں دے رہیں۔
حکومت اس وقت پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ سنا جا رہا ہے کہ مزید نئی وزارتیں پیدا کی جائیں گی جو ق لیگ کو دی جائیں گی تاکہ وہ اتحادی بن کر رہیں۔
جہاں تک بات ہے اپوزیشن کی تو ان میں بھی کوئی خاص دم نظر نہیں آ رہا۔ فضل الرحمان صاحب ویسے ہی حکومت سے باہر ہیں انکی کوئی سن نہیں رہا بھلے ہی وہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں۔
پیپلزپارٹی اب مارچ میں لانگ مارچ کرنے جا رہی ہے پر اس میں بھی کوئی دم خم نہیں نظر آ رہا کیونکہ عوام میں پیپلزپارٹی کی کوئی خاص مقبولیت نہیں ہے اور ن لیگ بھی کوئی کھل کر ساتھ نہیں دیتی۔
ن لیگ میں کافی دھڑے بندی کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ لیکن ایک بات پکی ہے کہ سب یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وزیراعظم عمران خان کو ہٹایا جائے۔ تاکہ احتساب کی لٹکتی ہوئی تلوار سے بچا جا سکے۔
اب اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کا کہ رہی ہے پر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ آج تک پاکستان میں کسی بھی حکومت کو اس طرح نہیں توڑا گیا نہ ہی کسی وزیراعظم کو اس طرح ہٹایا جا سکا ہے۔
کچھ تجزیہ نگار یہ کہ رہے ہیں جلد ہی حکومت گر جائے گی اپویشن مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔
لیکن اکثریت یہ کہتی دکھائی دے رہی ہے کہ اپوزیش والے ایک دوسرے کے ساتھ ہی مخلص نہیں اس لیے حکومت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں۔
اگر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو حکومت مزید مضبوط ہو جائے گی۔
پی ٹی آئی کے وزراء کہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کے کافی ووٹ حکومت کے حق میں جائیں گے
تجزیہ نگار یہ بھی کہ رہے ہیں کہ اپوزیشن بس کچھ دن ہی ایکٹو نظر آئے گی میڈیا کے سامنے خود کو مضبوط بنانے گی کوشش کریں گے پر ان سے کچھ ہونا کچھ بھی نہیں۔ یہ لوگ بس اکٹھے ہوں گے کھا پی کر نکل جائیں گے۔
مریم نواز کہ رہی ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ایک رسک ہے پر لینا تو پڑے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن عدم اعتماد میں کامیاب ہوتی ہے یا حکومت مضبوط ہی رہے گی۔ کیونکہ حکومت کے اتحادی بھی یہ سوچ رہے ییں کہ ہمارا کیا فائدہ ہو گا حکومت سے الگ ہو کر اور ہمیں کیا ملے گا کون سا پیکج دیا جائے گا۔
عوام کا کہنا ہے کہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ جو بھی آتا ہے بس اپنا مفاد دیکھتا ہے ملک و قوم کے ساتھ مخلص نہیں دکھائی دیتا۔
- لنک حاصل کریں
- ای میل
- دیگر ایپس
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں